حوزہ نیوز ایجنسی کی رپورٹ کے مطابق، انہوں نے حکومت پاکستان سے مطالبہ کیا ہے کہ عدالتیں توہین مذہب اور مذہبی کارڈ کے نام پر دہشت گردی کے مقدمات کو طول دینے کی بجائے ترجیحی بنیادوں پر ان کی سماعت کر کے فیصلے کریں، کیونکہ تاخیری حربوں سے ملزمان کی حوصلہ افزائی ہوتی ہے، جو بدامنی کا باعث بنتی ہے۔
انہوں نے مزید کہا کہ جب توہین مذہب کرنے والوں کو سزا نہیں ملتی تو لوگ مشتعل ہوتے ہیں، اور ملزما ن کی حوصلہ افزائی ہوتی ہے کہ انہیں سزا تو ملنی نہیں، جبکہ دوسری طرف مذہب کے نام پر دہشت گردی کرنے والوں کو جب سزائیں نہیں ملتیں تو لبرل طبقات اور غیر مسلم افراد کو بات کرنے کا موقع ملتا ہے۔
میڈیا سیل کی طرف سے جاری بیان میں ڈاکٹر عبد الغفور راشد نے کہا کہ سوات میں سیاح کا قتل قابل مذمت اور ریاستی اداروں کی ناکامی ہے، اس سے پہلے بھی ایسے کئی واقعات گوجرانولہ، سیالکوٹ، سرگودھا اور کئی مقامات پر ہوچکے ہیں۔چند افراد کی سازش یا اشتعال انگیزی سے پاکستان، امت مسلمہ اور اسلام کی دنیا بھر میں بدنامی ہوتی ہے۔ مذہبی کارڈ استعمال کرتے ہوئے دہشت گردی کرنے والے دین اور انسانیت کے دشمن ہیں۔ یہ اسلام نہیں جہالت ہے۔